مالیگاؤں بم دھماکہ 2006 ء میں باعزت بری ہونے والے 8 مسلم نوجوانوں کے
خلاف مہاراشٹر حکومت کی ہائی کورٹ میں اپیل مسلم دشمنی کا ثبوت ہے۔ جب کسی
معاملے میں مسلم نوجوانوں کو عدالت سے رہائی ملتی ہے تو حکومت اس کے خلاف
ضرور اپیل کرتی ہے۔ یہ مسلمانوں کے ساتھ حکومت کی دوغلی پالیسی کا نتیجہ
ہے ۔ اس قسم کی برہمی کا اظہارمہاراشٹر سماجوادی پارٹی لیڈر و رکن اسمبلی
ابوعاصم اعظمی نے حکومت کے مسلمانوں کے ساتھ سوتیلا سلوک پر کیا ۔ انہوں نے
کہا کہ سناتن سنستھا کے ارکان جب عدالت سے ثبوتوں کی عدم دستیابی کے سبب
باعزت رہا ہوجاتے ہیں تو سرکار اسے چیلنج نہیں کر تی ہے اور نہ ہی ان کے
خلاف عدالتوں میں پختہ ثبوت پیش کئے جاتے ہیں۔ مالیگاؤں بم دھماکہ 2006 ء
اپنی نوعیت کا ایک منفرد کیس ہے جس میں پہلے مہاراشٹر اے ٹی ایس اس کے بعد
سی بی آئی اور پھر این آئی اے نے از سر نو اس معاملے کی تحقیقات کی۔ اس میں
پایا کہ مسلم
نوجوانوں کا کوئی قصور نہیں ہے بلکہ یہ بم دھماکہ ہندو انتہا
پسند تنظیم نے ہی کیا ہے۔ اس کا اعتراف آر ایس ایس پرچارک سوامی اسیما نند
نے بھی کیا تھا جس کے بعد ہی این آئی اے نے عدالت میں مسلم نوجوانوں کو
ضمانت دیدی تھی اور پھر ان نوجوانوں کو باعزت بری کر دیا گیا تھا ۔ قومی سلامتی ایجنسی ( این آئی اے ) نے باقاعدہ طور پرمالیگاؤں بم دھماکہ
2006 ء میں ان مسلم نوجوانوں کو کلین چٹ دیدی تھی جس کے بعد ہی عدالت نے
انہیں رہا کیا ہے ایسے میں ہائیکورٹ جا کر سرکار کا اس فیصلہ کو چیلنج کر
نا کھلی مسلم دشمنی ہے۔ سرکاریں چاہے کانگریس ، این سی پی کی ہو یا بی جے
پی کی مسلمانوں کے ساتھ اس کی دو رخی پالیسی ہمیشہ ہی رہی ہے مالیگاؤں بم
دھماکہ 2008 ء کی ملزمہ سادھوی پرگیہ سنگھ ٹھاکر سمیت دیگر ملزمین کو راحت
دی جا رہی ہے۔ اب تک لیفٹیننٹ کرنل پروہت کو معطلی میں بھی تنخواہ مل رہی
ہے اس کے برعکس مسلمانوں کے ساتھ حکومت کا سوتیلا رویہ معنی خیز ہے۔